یوں تو خون کے چھینٹے اور آتش ِ فتنہ کی چنگاریاں فرشتوں کی نگاہوں نے خمیر آدم ہی میں بھانپ لیں تھیں، لیکن محشرستان کے حواری شاید خون ریزی اور فساد انگیزی کا ایسا منظر شعلہ بار دیکھنا چاہتے ہیں جو چشم ِ فلک نے، اس کی نظیر اس سے پیشتر کبھی نہ دیکھی ہو، اس حقیقت ِ ہوش ربا کے سامنے تھیوکریسی کی چالاک داستانیں فسانہ بن گئی ہیں، ایک ایک فیصلے میں لاکھوں انسانوں کی دسترس سے امن کے حصول کو ناممکن بنانا اور شدت پسندی سے بستیوں کی بستیاں فروعی مفادات کے خواہش مندوں کے ہاتھوں، آگ بجھانے کے بجائے نذرِ آتش ہوجانا تو آبادیوں کی آبادیاں ہجرات کے ہاتھوں کھنڈرات کی تمثیل کا منظر پیش کر چکی ہیں۔
نہ زمین پر امن نہ پانی میں اماں، نہ ہوا میں پناہ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ بے امنی کے سپہ سالاروں نے اپنے عفریتی لشکرو ں کے ہجوم کے ہجوم، پہاڑوں کے غاروں اور سمندروں کے تہوں سے آزاد کرکے بے لگا م چھوڑ دئیے کہ وہ بے گناہ عوام پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح چھپٹ پڑیں اور بوڑھے، بچے،عورتیں، بیمار، ضعیف کسی کی تمیز روا نہ رکھتے ہوئے جو سامنے آئے اُسیمخصوص مفادات کی آگ میں بھون کر چباتے چلے جائیں، یہ تو ان کا حال ہے جو اس حلقہ بے امن کے اندر ہیں لیکن جو باہر ہیں وہ بھی سکون کی نیند نہیں سو سکتے۔ ہر شخص اپنی اپنی جگہ سہما ہوا ہے کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے، ملک بھر میں ایک وحشت اور بے یقین صورت حال کی کیفیت طاری، سراسمیگی چھائی اورپریشانی پھیلی ہوئی ہے۔ ناتواں و غریب عوام ایک گوشے میں کھڑے کانپ رہے ہیں،”نیکی“ ایک گونے میں دبکی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا اُبالی جارہی ہو، اور کوئی کہہ نہیں سکتا کہ جب یہ اُبال بیٹھے گا تو دنیا کیا سے کیا ہوچکی ہوگی، سیاسی افراتفری، اور نام نہاد عظیم تر مفادات کی اس وحشت ناک لڑائی کا انجام نہ جانے کیا ہو گا۔
ایسی وحشت و سراسمیگی میں کس دماغ کو فرصت مل سکتی ہے کہ وہ کچھ سوچے، غور کرے، لیکن اگر آپ کو کوئی لمحہ فرصت کا مل سکے تو ذرا سوچئے تو سہی یہ کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟۔ مہنگائی کے ستائے عوام تو مستقبل کے لئے توانا نسل بھی تیار نہیں کرپا رہے اور نوجوان نسل علم اور تہذیب کی روشنی سے محروم در محروم ہوتے جا رہے ہیں، اشرافیہ کے بھرے خزانوں کی معراج کمال پر ہے لیکن یہ ضرور جان رکھیں کہ احساس محرومی کے شکار یہ عوام جب کسی انتشار پر آئے تو پھر ان سے تہذیب و تمدن کا اجارہ دار کچھ بھی کہے، وہ وقت کا ضیائع ہوگا، پھر ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ انسانیت کو جھاڑ کر الگ کرکے رکھ دیں۔
آج دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان اسی فکر میں غرق بیٹھے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ایجاد کریں، جس سے کم ازکم وقت میں زیادہ زیادہ سے انسان تباہ ہوجائیں، کیا انسان کو علم و ہنر کی نعمت سے اسی لئے نوازا گیا تھا کہ وہ اس سے درندوں کے تیز ناخنوں کا کام لے، پھر سوچئے توسہی اس قدر عقل و شعور رکھتے ہوئے ساری دنیا کو دانش وانش کا سبق دینے والوں کے سر پر جنگ کا جنون کیوں سوار رہتا ہے، آپ اس پر جس قدر غور کرلیں، ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ آج کے مادہ پرستی کے ماحول سے متاثر انسان جب حق کی بات کو سنتا ہے تو ہنس دیتا ہے، لیکن خود مادہ پرستی ہی اب اس کے منہ پر وہ تھپڑ لگا رہی ہے کہ اس کے بعد اس کا ہوش میں آنا ضروری ہے، دنیا کو خدا فراموشی اور احساس سے محرومی کی سزا کا انتظار کیوں ہے۔
کسی کو نہیں معلوم نت نئے نقلاب کے مزید کتنے بھیانک نتائج بھگتنے ہوں گے، کسی کو غم ِ روزگار سے فرصت نہیں کہ معاملات پَرسکون قلب سے غورکرے، حالاں کہ پوری دنیا کے لئے وقت اب آچکاہے کہ پورے سکون و تحمل سے سوچیں کہ اس قسم کی تبدیلی کے انقلاب،جس میں غریب مزید غریب تر اور دولت مندوں کے خزانوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جھوٹے نعروں اور وعدوں کی کوکھلی ترقی کا انجام بالاآخر کیا ہوگا۔ حالات بڑے نازک اور وقت بھی کم ہیں،لیکن یقین پھر بھی ہے کہ اگر ان حالات پر سنجیدگی سے غور کرلیا جائے تو چہ عجب کہ یہی خطہ انسانیت کی خدمت کے عہد کو پورا کرنے کا اہل ہوسکے۔عوام کو اس بڑے بحرانی سمندر میں ہاتھ پیر باندھ کر پھینکنے کے بجائے فطرت کے اس قانون کو آواز نہ دی جائے کہ مہلت کا وقفہ بھی نہ مل سکے۔
آج کمزور معیشت و بے امنی کے اسباب اور اٹھنے والی آوازوں کو کسی بھی طور دبایا جاسکتا ہے اور اس کی تائید میں آوازیں بھی خریدیں جاسکتی ہیں لیکن آنے والا مورخ جب آج کے حالات کا جائزہ لے گا تو دیکھے گا کہ ایسے وقت میں جب قوموں کی قسمتوں کے فیصلے ہو رہے تھے خود عوام نے اپنے ساتھ کیا کیا، جس کی تقویت میں اس قوم کی زندگی کا راز پوشیدہ تھا، تو اس وقت حق کی آواز کو کوئی دبا نہ سکے گا، سوچئے کہ آپ کو کس صف میں کھڑا ہونا ہے، ذرا نہیں پورا سوچئے کہ عوام کے محنت سے نچوڑنے جانے والے خون پسینے کی کمائی کہاں خرچ ہو تی رہی اور ہورہی ہے۔مخصوص عناصر اپنا گورگھ دھندے کس چھتری تلے بیٹھے بے خوفی سے چلا رہے ہیں، عوام کو صوبائیت، لسانیت، مسالکی اور فرقہ واریت کے ہتھیار تھما کر آزادی دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی چھری سے اپنا ہی گلا کاٹ سکتے ہیں۔ حکومت وقت کے ہر قانون مروجہ کی اطاعت بطور فریضہ عائد ہوجاتی ہے لیکن کچھ فرائض ریاست کے بھی ہوتے ہیں۔
پیالی میں طوفان برپا ہوچکا، عوام اور حکمرانوں کے درمیان خاردار تاروں کی باڑجگہ لے چکی ۔بادی ئ النظر ایسا لگتا ہے کہ کسی جماعت کا فریضہ یہ بن چکا ہے کہ چاہے کسی بھی جماعت یا لاچار عوام کے جذبات کو ٹھیس لگے، یہ نہ کہیں کہ امن عامہ میں خلل واقع ہوا ہے، سانس لینے پر پابندی ہی باقی رہ گئی ہے لیکن یہ کہاں کا اصول جہانداری ہے کہ حکومت بیسیوں مرتبہ ایسے فیصلے کرتی ہو جن کی غلطیاں خود ان کے سامنے آجاتی ہوں اور انہیں آئے دن ان فیصلوں کی ترمیمات جاری کرنی پڑے،اگر اس فیصلہ کو ویسا ہی سمجھ لیا جائے تو بات کبھی نہ بڑھے، لیکن ضد کا کیا علاج۔